20 مئی 2025 - 15:36
اسرائیل کا مقصد حماس کا خاتمہ نہیں غزہ کے عوام کا قتل عام ہے + ویڈیو

اسرائیل جنگ کے 19 مہینوں کے بعد بھی دو اہم مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جن میں سے ایک حماس کا خاتمہ تھا اور دوسرا اپنے قیدیوں کو واپس لانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی اراضی پر قبضہ نہ صرف حماس کے خاتمے کا سبب نہیں ہو سکے گا بلکہ یہ صرف غزہ میں انسانی المیے طویل تر ہونے کا سبب ہوگا۔ غزہ جس کے50 ہزار سے زائد باشندے اب تک قتل ہوئے ہیں؛ جن میں سے 30 ہزار سے زاید افراد نہتے شہری تھے اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، ان میں 15000 سے زائد، بچے تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | ٹیلی گرام چینل "shidtv" نے بی بی سی کے ساتھ اسٹریلیا کی قومی یونیورسٹی کے استاد اور سیاسی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر عَلَم صالح کا ایک کلپ نشر کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ اسرائیل کا مقصد حماس کا خاتمہ نہیں غزہ کے عوام کا قتل عام ہے۔

بی بی سی کے اینکر کا اسٹریلیا کی قومی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عَلَم صالح سے سوال: اس جنگ کو دوسال ہو رہے ہیں، چند روز بعد اس کے دو سال مکمل ہوجائیں گے، لیکن کیا اسرائیل اس خطے [غزہ] کو اپنی سرزمین (یعنی مقبوضہ علاقوں) میں ضم کر رہا ہے؟ اور کیا سابقہ غزہ مزید باقی نہیں رہے گا؟

جواب: یقینا آج تک ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام، محض ایک قتل عام ہے جو ایک شہری یا شہر کے اندر کی لڑائی کے نتیجے میں انجام کو پہنچا ہے لیکن ہم اس حملے اور غزہ کی سرزمین پر قبضے کے جاری رہنے اور انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کی بندش کو دیکھ کر کچھ ایسے اشارے دیکھ رہے ہیں جو غزہ کی پوزیشن بدلنے کی طرف اور غزہ کی آبادی کا تناسب بدلنے کی طرف، اور یہ نسل کشی اور جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، قابض ریاست پر لازم ہے کہ انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دے دے، اور خود بھی مدد کرے کہ یہ کام ممکن ہو جائے۔ کسی بھی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی علاقے کے تشخص اور آبادی کا تناسب بدل ڈالے۔ یہ پھر بھی جنگی جرائم اور نسل کشی کا مصداق ہو سکتا ہے۔ یہ سب ایسے حال میں ہو رہا ہے کہ غزہ کی جنگ سے 19 مہینوں سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے، اس عرصے میں تمام انسانی ڈھانچوں ـ بشمول صحت، ایندھن اور اشیائے خورد و نوش ـ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اس علاقے میں اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کے عوام کو فاقہ کشی کروانے اور اجتماعی سزا کی تکنیک کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اینکر: اگر [اسرائیلی] غزہ کو اپنے حال پر چھوڑیں، تو کیا حماس دوبارہ طاقتور نہیں ہوگی؟

جواب: دیکھئے، تقریبا دو ماہ قبل حماس مصر اور قطر کی وساطت سے، تل ابیب اور واشنگٹن کے ساتھ ایک سمجھوتے تک پہنچی، یہ سمجھوتہ کم از ام ایک وقتی نتیجے پر منتج ہو سکتا تھا اور بھوک اور فاقوں کے خاتمے کا سبب بن سکتا تھا اور 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو درپیش انسانی المیوں کا سد باب کر سکتا تھا۔ اسرائیل ہی تھا کہ جس نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کے سمجھوتے کو پامال کر دیا۔

اسرائیل جنگ کے 19 مہینوں کے بعد بھی دو اہم مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جن میں سے ایک حماس کا خاتمہ تھا اور دوسرا اپنے قیدیوں کو واپس لانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کی اراضی پر قبضہ نہ صرف حماس کے خاتمے کا سبب نہیں ہو سکے گا بلکہ یہ صرف غزہ میں انسانی المیے طویل تر ہونے کا سبب ہوگا۔  غزہ جس کے50 ہزار سے زائد باشندے  اب تک قتل ہوئے ہیں؛ جن میں سے 30 ہزار سے زاید افراد نہتے شہری تھے اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، ان میں 15000 سے زائد، بچے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha